کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 24
آپ ان کو سنا چکے ہیں۔ ذرا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس کلمہ پر غور کیجیے! ’’اللہ کے یہ دشمن جتنا اب مجھے کمزور محسوس ہو رہے ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔‘‘ یقینا جب ایمان دلوں میں جگہ بنا لے تو دنیا کی اہمیت گِر جاتی ہے بلکہ وہ بالکل ہی ایک ادنیٰ سی چیز نظر آتی ہے۔ اور جب انسان کا مطمح نظر دنیا اور اس کا سازو سامان اور مال و جاہ ہو تو دلوں میں بزدلی اور مداہنت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہمارے اور سلف صالحین کے درمیان یہی فرق ہے۔ وہ جب بھی کسی معرکے میں شامل ہوتے تو ان کا مقصد محض نصرت الٰہی کا حصول اور اللہ کی راہ میں شہادت ہوتا تھا۔ وہ لوگ مدد طلب کرتے تھے مگر اپنے لیے نہیں اور نہ ہی اپنی حکومت کے لیے بلکہ اللہ کے دین اور اس کے کلمے کی سر بلندی کے لیے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر میں سرداران قریش اور کفر کے سرغنے نہایت کمزور اور ناتواں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ مجھ سے وہ چیز ہرگز نہیں چھین سکتے جس کی مجھے طمع ہے یا جس کا میں مالک ہوں۔ ان کے پاس صرف دل اور روح تھی۔ چاہے کسی کے پاس کتنی طاقت اور اختیار ہو، وہ یہ دو چیزیں زبردستی حاصل نہیں کر سکتا۔ دلوں کا حقیقی مالک تو وہ ہے جو دلوں کو پھیرنے والا ہے اور اسی نے موت کا ایک وقت مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا﴾ ’’بغیر اللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقررہ وقت لکھا ہوا ہے۔‘‘ [1]
[1] آل عمران 3: 145۔