کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 234
بن عبدالمطلب بھی عبداللہ کے ہمراہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرۂ انور موڑ لیا اور کوئی کلام نہ کیا۔ یہ اپنی بہن ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور اُن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارش کرنے کو کہا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ کا چچا زاد اور پھوپھی زاد اور برادر نسبتی آپ کی خدمت میں حاضری کا آرزو مند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ چچا زاد نے میری بے عزتی کی تھی اور وہ پھوپھی زاد اور برادر نسبتی وہی ہے جس نے مکہ میں وہ باتیں کہیں جو کسی طرح بھی مناسب نہیں تھیں۔‘‘ جب اس بات کی خبر انھیں پہنچی تو ابو سفیان بن حارث نے کہا، حالانکہ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا: ’’اللہ کی قسم! یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیں گے یا پھر اپنے بچے کا ہاتھ پکڑ کر کہیں چلا جاؤں گا اور بھوکا پیاسا مر جاؤں گا۔‘‘[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان بن حارث سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے جاؤ اور وہ کہو جو یوسف علیہ السلام سے اس کے بھائیوں نے کہا تھا۔ ﴿ قَالُوا تَاللّٰهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ﴾ ’’اللہ کی قسم! یقیناً اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت عطا کی اور بلاشبہ ہم ہی خطا وار تھے۔‘‘[2] انھوں نے ایسا ہی کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿ قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾
[1] تاریخ الطبري:2؍50، والسیرۃ لابن ہشام:3؍18، والبدایۃ والنھایۃ: 4؍287۔ [2] یوسف 12 :91۔