کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 233
کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور بغض وعناد میں پہلے سے بھی زیادہ پکا ہو گیا۔ وہ کمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم کی قریشی مجلس میں شریک ہوتا رہا اور بتوں کے لیے نذر و نیاز سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ توحید سے دور بھاگتا رہا، اسلام کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہا حتی کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان بدر و اُحد اور خندق جیسے بڑے بڑے حالات و حوادث پیش آئے۔ اس نے ان موقعوں پر نصرتِ الٰہی کی نشانیوں کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کا دل نرم پڑ گیا مگر اس نے اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ قریش نے جب عہد حدیبیہ کا پاس لحاظ نہ رکھا اور معاہدہ توڑ ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ فتح کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی، مسلمانوں نے بھرپور تیاری کی اور محمدی لشکر مکہ کے راستے پر چل پڑا۔ عبداللہ بن امیہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ فتح کرنے کے عزم کا پتا چلا تو اس نے سوچا: کیا فتح مکہ تک مکہ میں رہا جائے؟ یا کہیں اور پناہ ڈھونڈ لی جائے؟ یا اسلحہ اٹھا کر اس کا مقابلہ کیا جائے؟ بھلا اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد تو آسمان سے فرشتوں کے ذریعے کی جاتی ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں۔ اور حق پر باطل کا غالب آنا اب محال لگتا ہے۔ اس نتیجے پر پہنچ کر اسے اطمینان ہوا۔ اس نے بیعت اسلام کا پختہ ارادہ کر لیا۔ عبداللہ بن امیہ اپنی سواری پر سوار مدینہ کی جانب عازم سفر ہے کہ ’’سقیا و عرج‘‘ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حال میں اس کی ملاقات ہوئی کہ ابو سفیان بن حارث