کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 232
وہ مسجد کے دروازے سے باہر نکلنے لگا۔ میں نے دل میں کہا: ’’اللہ تجھ پر لعنت کرے!‘‘ مگر اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کی آواز سن لی تھی۔ وہ اپنے اونٹ پر سوار تھا، اونٹ کی ناک کٹی ہوئی تھی، اس نے پالان الٹا کیا ہوا تھا، اپنا گریبان چاک کر رکھا تھا اور چلا رہا تھا: ’’اے قریش! اے قریش! اپنا مشک بردار تجارتی قافلہ بچاؤ، تمھارا مال ابو سفیان کی نگرانی میں ہے، اس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت حملہ کر دیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ تم پہنچ سکو! مدد! مدد! عاتکہ بنت عبدالمطلب کا خواب سچ ثابت ہوا۔ قریش بھرپور تیاری کے ساتھ نکلے۔ وہ جنگ کرنا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو سبق سکھانا چاہتے بلکہ نشانِ عبرت بنانا چاہتے تھے۔ قافلہ صحیح سلامت بچ نکلا۔ اس کے باوجود ابو جہل نے واپس جانے کی شدید مخالفت کی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت دینے اور کامیاب و کامران ٹھہرانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ عبداللہ بن امیہ شہسوارِ مکہ کا بیٹا، ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بھائی ہے۔ اس کی ماں عاتکہ بنت عبدالمطلب ہے۔ یہ عورت صاحب سیرت ہے اور شہسوار کی ماں ہے۔ عبداللہ بن امیہ قریش کا سفیر اور مشرکین مکہ کی مجلس شوریٰ کا رکن تھا۔ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاکرات کیے، وہ ناکام ہوئے اور انھیں اپنی ہار دکھائی دی، عبداللہ بن امیہ کفر پر ڈٹا رہا، اس نے نہایت درشت اور گھٹیا زبان استعمال