کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 23
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سناؤں گا۔ وہ کہنے لگے: ہمیں ڈر ہے کہ وہ آپ کو تکلیف پہنچائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص ہو کہ اگر قریشی اس پر پل پڑیں تو اس کے خاندان والے اسے بچا سکیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں! تم مجھے جانے دو۔ میرا اللہ میری حفاظت فرمائے گا۔
صبح چاشت کے وقت جب سرداران قریش مقام ابراہیم کے پاس اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آئے اور بآواز بلند تلاوت کرنے لگے۔
﴿ الرَّحْمَنُ ،عَلَّمَ الْقُرْآنَ ،خَلَقَ الْإِنْسَانَ ،عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ،الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ﴾
’’(اللہ) رحمن نے۔ قرآن سکھایا۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب سے(چلتے) ہیں۔‘‘ [1]
راوی کہتا ہے کہ انھوں نے کچھ دیر تأمل کیا اور پھر کہنے لگے: دیکھو تو، یہ ام عبد کا بیٹا کیا کہہ رہا ہے؟ پھر انھوں نے کہا: یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہونے والی کتاب کی تلاوت کر رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ وہ ان کی طرف لپکے اور ان کے چہرے پر مارنے لگے۔ وہ پڑھتے جا رہے تھے اور کافر برے طریقے سے انھیں پیٹ رہے تھے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے، جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، پڑھا، پھر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے جبکہ آپ کے چہرہ مبارک پر زخموں کے نشان نمایاں تھے۔ آپ کے ساتھی کہنے لگے: ہم جانتے تھے کہ آپ کے ساتھ یہی سلوک ہو گا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ گویا ہوئے: اللہ کے یہ دشمن جتنا اب مجھے کمزور محسوس ہو رہے ہیں پہلے کبھی نہ تھے اور اگر تم چاہو تو کل صبح میں پھر اونچی آواز میں تلاوت کروں گا۔ آپ کے ساتھی کہنے لگے: نہیں، اتنا کافی ہے۔
[1] الرحمٰن 55 :5۔1۔