کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 223
بلکہ یہ تو ایک سیلِ رواں تھا جس نے زمین کو خیر و بھلائی سے بھر دیا اور مسلمانوں کے تمام علاقوں میں یہی معاملہ تھا، کیونکہ وہاں شریعت کا نفاذ تھا۔ انھی واقعات میں سے ایک واقعہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے دور میں پیش آیا۔ انھوں نے ولایت سنبھالتے ہی عراق کے سابق نگران یزید بن أبی مہلب بن ابی صفرہ کو پکڑنے کا حکم جاری کیا۔ کیونکہ انھیں خفیہ ذریعے سے اطلاع ملی تھی کہ اس نے بیت المال سے بہت سا مال جمع کیا ہے۔ جب یزید کو ہتھکڑی پہنا کر خلیفہ عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے یزید سے اس مال کے بارے میں پوچھا جس کے بارے میں اس نے سلیمان بن عبدالملک کو خط لکھا تھا۔ (سلمان اس وقت فوت ہوچکا تھا) یزید نے کہا: میں سلمان کے پاس اسی جگہ موجود تھا جس جگہ اب آپ موجود ہیں۔ میں نے سلمان کو اس مال کے متعلق لکھ دیا تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے، لیکن سلمان نے اس مال کے سلسلے میں مجھ سے کوئی چیز وصول کی اور نہ کوئی سخت حکم جاری کیا۔ خلیفہ گویا ہوئے: ’’میں تجھے قید میں ڈالتا ہوں۔ اللہ سے ڈر اور جو کچھ تیرے پاس ہے اسے لوٹا دے۔ یہ لوگوں کے حقوق ہیں۔ ‘‘ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: ’’میں اس کا سارا مال ضبط کر کے چھوڑوں گا۔ ‘‘ آج کل کوئی بھی ڈاکو یا لٹیرا جب سب کا مال لوٹ لیتا ہے تو راز کھلنے پر اسے اس کے عہدے سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے۔ یہ چیز دوسروں کو بھی دعوت دیتی ہے کہ آؤ اور اپنے لیڈروں کی طرح تم بھی جس قدر ممکن ہو لوٹ مچا دو۔ اس کا انجام آج ہم سب کے سامنے ہے کہ قوموں کی معیشت ڈوب جاتی ہے اور ڈاکو لیڈر اور ان کے رشتہ دار عیاش بن جاتے ہیں۔