کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 222
میں گزرا۔ لیکن بعد میں ان کے بارے میں جو کچھ مشہور ہوا اور دعویٰ دائر ہوا تو انھیں معزول کر دیا گیا۔ ان سے تمام اختیارات چھین لیے گئے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ان پر اسی طرح حد قائم کی گئی جس طرح عام آدمی پر حد قائم ہوتی تھی۔ یہ ہے اسلام کی عدالت کا انصاف۔ تاریخ اس پر فخر کرتی ہے۔ وہ معاشرہ انصاف اور محبت پر مبنی تھا۔ وہ ایسا معاشرہ تھا جس میں حاکمیت اللہ وحدہ لا شریک کی ہوتی تھی۔ اور اللہ کی نافرمانی میں حاکم کی اطاعت نہیں کی جاتی تھی۔ انسان صرف تقویٰ بزرگی اور نیکی کی وجہ سے فضیلت والا ہوتا تھا۔ یہ ایسا معاشرہ تھا جس میں انسان کی آبرو محفوظ تھی۔ انسان معمولی ضرورت کے لیے خود کو ذلیل و رسوا نہیں کرتا تھا، ظلم و زیادتی پر راضی نہیں رہتا تھا، نہ انسان خالی خولی عدد تھا جو صرف شمار کے کام آئے، نہ وہ مشینری تھا جسے یہ پتا ہی نہ ہو کہ وہ کب کام ختم کرے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو سیدنا ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو معزول کیا تھا تو یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پہلے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس وقت معزول کیا تھا جب وہ اسلام کی خوب تبلیغ کر رہے تھے اور ظالم رومیوں کو انھی کی سر زمین پر تاخت و تاراج کر رہے تھے۔ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کر دیا اور ان کے پاس موجود مال تقسیم کر دیا۔ ان کے لیے یہ سفارش نہیں کی گئی کہ وہ ’’سیف اللہ ‘‘ کے لقب سے ملقب ہیں، نہ یہ حقیقت ان کی برطرفی روک سکی کہ وہ ایسے کمانڈر تھے جو کبھی جنگ میں نہیں ہارے، ان کے لیے وہ معاملہ ہی باقی نہ رکھا گیا جس میں انھوں نے تجاوز کیا۔ اسلامی تاریخ میں یہ عدل و انصاف سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما تک ہی محدود نہ تھا