کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 22
حقیقت یہ ہے کہ پاکیزہ اور صاف دل (انسان) جب نور ایمان اور حق کے دلائل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں تو فوراً انھیں قبول کر لیتے ہیں اور لیت و لعل سے کام نہیں لیتے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی حق کا مشاہدہ کرنے کے بعد قبول اسلام میں سبقت حاصل کی اور سردارانِ قریش کے سامنے علی الاعلان اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ جھوٹے معبودوں اور بتوں کا ببانگِ دُہل انکار کیا اور اپنا دل اس ذات باری تعالیٰ کی طرف موڑ لیا جو زمین و آسمان اور موت و حیات کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہ اپنی بادشاہت میں اکیلا ہے۔ مخلوق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ پاک ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے مکہ میں اونچی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ آپ ایسے غریب اور درویش انسان تھے کہ مال و دولت آپ کو بہکا نہ سکے، ایسے حلیف اور معاہد تھے کہ اپنے خاندان اور برادری کی طرف داری نہیں کرتے تھے۔ آپ وہ مومن تھے کہ جنھوں نے اسلام کے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہی تو اسلام نے انھیں عزت عطا کی اور جس نے صرف اپنے خالق و مالک پر بھروسا کیا تو اس نے انھیں ضائع نہیں کیا۔
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے انسان ہیں جنھوں نے مکہ مکرمہ میں قرآن پاک کو اونچی آواز میں پڑھا۔
عروہ بن زبیر تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک دن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جمع ہوئے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! قریش نے ابھی تک قرآن پاک کو اونچی آواز میں نہیں سنا، لہٰذا کون وہ بہادر ہے جو انھیں اونچی آواز میں قرآن حکیم سنائے؟ حضرت