کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 212
جب ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو اپنی بہن کی ہجرت کا پتہ چلا تو انھوں نے قسم کھائی کہ میں اسے ہر صورت واپس لا کر رہوں گا،چاہے مجھے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ وہ اور اس کا بھائی عمارہ بن عقبہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے۔ انھوں نے اپنی بہن کو طلب کرتے ہوئے صلح حدیبیہ کا معاہدہ یاد دلایا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو نرمی سے صرف اتنا فرمایا: ’’اللہ نے انھیں واپس کرنے سے منع کردیاہے۔‘‘[1] دونوں مکہ پلٹ آئے۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ تک وہیں رہے، پھر فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل تابعداری کی، دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے لگے اور محنت کرکے شریعت الٰہی کو پہچاننے لگے۔ وقت گزرتا رہا۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بنو مصطلق سے ان کے اموال کی زکاۃ وصول کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ ان کی طرف روانہ ہو گئے، جب وہاں پہنچے تو انھوں نے بنو مصطلق کو دیکھا کہ وہ جمع ہیں اور اسلحہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان خطرے میں محسوس کی اور ان کے بارے میں گمان کیا کہ وہ غلط ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ واپس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’بنو مصطلق نے اپنے اموال کی زکاۃ روک لی ہے اور مجھے قتل کرنے کے درپے ہیں۔‘‘ یہ بات مسلمانوں میں پھیل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تیاری کا حکم موصول ہوا۔ وہ سب جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو گھڑ سواروں کے دستے کے ساتھ حقیقتِ حال معلوم کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔
[1] الطبقات لابن سعد:8؍231۔