کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 21
’’بچے ! کیا ہمیں کچھ دودھ پلا سکتے ہو؟‘‘
سیدنا ابن مسعود نے جواب دیا: یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں۔ میں آپ لوگوں کو دودھ نہیں پلا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھارے پاس ایسی بکری ہے جس سے بکرے نے ابھی تک جفتی نہ کی ہو؟ ‘‘ عرض کیا: جی ہاں! اور پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ بکری لے آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو اپنے قابو میں لیا اور اپنے مبارک ہاتھ اس کے تھنوں پر پھیرے اور دعا بھی کی۔ تھن دودھ سے بھر آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن نما پتھر لائے۔ آپ نے اس میں دودھ دوہا۔ ابن مسعود فرماتے ہیں: میں نے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ دودھ پیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھن کو حکم دیا: ’’سکڑ جا۔‘‘ تو وہ پہلی حالت میں آ گیا، فرماتے ہیں: اس واقعے کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: آپ مجھے بھی ایسا کلام سکھائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم سمجھدار بچے ہو۔‘‘ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر (70) سورتیں سیکھیں۔ وہ سورتیں مجھے ایسی یاد ہوئیں کہ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ [1]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں پناہ لینے سے قبل دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہ خود فرماتے ہیں: میں چھٹے نمبر پر مسلمان ہوا۔ ہم چھے کے علاوہ اس وقت اس زمین پر کوئی اور مسلمان نہیں تھا۔ [2]
ابن الجزری کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے مسلمان ہوئے۔ [3]
[1] الطبقات الکبریٰ:3؍101۔
[2] مصنف ابن أبي شیبۃ:12؍ 114، حدیث: 32898۔ و أسد الغابۃ:2؍171۔
[3] غایۃ النھایۃ لابن الجزري:1؍458۔