کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 200
’’اے لوگو!بلاشبہ ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورہم نے تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو۔ بلاشبہ اللہ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ متقی ہے، بلاشبہ اللہ بہت علم والا،خوب باخبر ہے۔‘‘[1]
اے قریشیو! تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تمھارے ساتھ کیسا سلوک کروں گا؟‘‘
انھوں نے کہا: آپ ہمارے ساتھ بہتر سلوک کریں گے کیونکہ آپ ایک معزز شخص ہیں اور محترم باپ کے بیٹے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ، تم آزاد ہو۔‘‘
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں تشریف فرما ہوگئے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کعبۃ اللہ کی چابیاں لے کر آئے اور عرض کی:
’’اے اللہ کے رسول! سقایہ کے ساتھ ہمیں حجابہ کا عہدہ بھی دے دیجیے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عثمان بن طلحہ کہاں ہیں؟‘‘
انھیں بلایا گیا، وہ آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عثمان! یہ لو اپنی چابیاں۔ آج نیکی اور ایفائے عہد کا دن ہے۔‘‘[2]
ایک روایت میں یہ وضاحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کعبہ کی چابیاں دیں تو ان کے ساتھ ان کے فرزند شیبہ بن عثمان بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بنو ابی طلحہ! یہ چابیاں تم ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھو۔ کوئی ظالم ہی تم سے یہ چابیاں چھینے گا۔‘‘[3]
اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ لوٹ آئے تاکہ قریب سے
[1] الحجرات 13:49۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:4؍35، والبدایۃ والنہایۃ: 4؍335۔
[3] الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب: 3؍1034۔