کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 199
مطمئن ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیٹھ کر طواف کعبہ کیا، آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے سے حجر اسود کا استلام بھی کیا۔ جب طواف مکمل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان سے کعبہ کی چابیاں لیں، باب بیت اللہ کھولا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے۔ آپ نے لکڑی کا ایک پرندہ دیکھا، اسے اپنے مبارک ہاتھوں سے توڑا، پھر آپ دروازے پر کھڑے ہوگئے، لوگ بھی جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ہے۔ اپنے بندے کی مدد کی ہے اور اس اکیلے نے بہت سے لشکروں کو شکست دی ہے۔ خبردار! کسی بھی موروثی خوبی، عہدے، خون یا مال کا دعویٰ اب میرے ان قدموں تلے ہے سوائے سدانہ اور سقایہ کے۔ خبردار! وہ قتل خطا جو شبہ عمد ہو، یعنی جس میں نیزے اور عصا کے ساتھ مارا گیا ہو اس کی دیت مغلظہ ہوگی۔ سو اونٹوں میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی۔‘‘ اے قریش کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے تمھاری جاہلیت کی نخوت کو ختم کردیا ہے۔ آباو اجداد پر فخر بھی کالعدم ہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾