کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 198
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، انھوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر عمرو آگے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ میرے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور میں اپنی گزشتہ زندگی کو بھول جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمرو! تم بیعت کرو اسلام قبول کرنے سے گزشتہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ہجرت کرنے سے بھی پچھلے گناہ جاتے رہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے بیعت کرلی اور پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے بعد عثمان بن طلحہ نے اسلام کا اعلان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرلی۔[1] کیا یہ تینوں اسلام لانے کے بعد مدینہ ہی میں رہے؟ انھیں کون سے امور سونپے گئے؟ اس مرحلے میں عثمان رضی اللہ عنہ کا کیا کردار رہا؟ سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے اسلام اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مستقل ڈٹے رہے یہاں تک کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدعہدی کی اور سرکشی پر اتر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرکوبی کے لیے غور و فکر کرنا شروع کردیا۔ اس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس ہزار جان نثاروں کا لشکر لے کر سوئے مکہ روانہ ہوئے، تاہم بغیر کسی جدال و قتال کے مکہ فتح ہوگیا سوائے آس پاس کے چند ایک معرکوں کے۔ صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور لوگ
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍ 320، ومسند أحمد: 4؍198۔