کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 197
اللہ کی قسم! وہ حق پر ہے اور یقیناً وہ اپنے مخالفین پر اسی طرح غالب آئے گا جس طرح موسیٰ علیہ السلام فرعون پر غالب آئے تھے۔
میں نے کہا: کیا آپ اسلام پر میری بیعت قبول کرتے ہیں؟
نجاشی نے کہا: ہاں، اس نے اپنا ہاتھ پھیلایا تو میں نے اس کی بیعت کرلی اور اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا، میرے خیالات بدل چکے تھے، میں نے ساتھیوں سے اپنا اسلام چھپالیا۔[1]
یہ لوگ ناکام ہوکر واپس مکہ لوٹ گئے۔ عمرو اور اس کے ساتھی جب حبشہ میں مناسب مقام و مرتبہ نہ پاسکے تو انھیں بھی واپس جانا پڑا۔
کتب تاریخ میں مذکور ہے کہ مکہ کے تین آدمیوں نے اتفاق رائے سے طے کیا کہ وہ یثرب جائیں گے۔ وہ تین افراد یہ تھے: عمرو بن العاص، خالد بن الولید اور عثمان بن ابی طلحہ۔
عمرو بن العاص نے خالد سے کہا: ابوسلیمان کہاں کاارادہ ہے؟
خالد: واللہ! اب معاملہ بالکل واضح ہوگیا ہے، وہ آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)واقعی نبی ہے، میں اسلام قبول کرنے جارہا ہوں۔ آخر کب تک (ہم حق کا انکار کرتے رہیں گے)؟
عمرو: واللہ! ہم بھی مسلمان ہونے کی غرض سے جمع ہوئے ہیں۔
یہ تینوں مدینۃ الرسول کا قصد کرتے ہوئے روانہ ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا:
’’مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمھاری طرف پھینک دیے ہیں۔‘‘ [2]
[1] الکامل لابن الأثیر:2؍231۔
[2] السیرۃ لابن ہشام: 3؍320۔