کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 196
قریشی سردار خوش ہوں گے اور سمجھیں گے کہ واقعی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قاصد کو قتل کرکے میں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا: ہاں، یہ ٹھیک ہے۔
عمرو کہتے ہیں: میں نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا اور اس کے سامنے پہلے کی طرح جھکا۔ نجاشی نے مجھے مرحبا کہا اور پوچھا: اپنے ملک سے ہمارے لیے کوئی تحفہ لائے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں! بادشاہ سلامت! میں آپ کی خدمت کے لیے بہت سارا چمڑا لایا ہوں، میں نے وہ تحائف پیش کیے تو اسے بہت پسند آئے۔
میں نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا: بادشاہ سلامت! ابھی میں نے آپ کے دربار سے ایک آدمی کو نکلتے ہوئے دیکھا ہے، وہ ہمارے دشمن کا آدمی ہے۔ یہ آدمی آپ میرے حوالے کردیں، میں اسے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے اس دشمن نے ہمارے سرکردہ لوگوں کو قتل کیاہے۔
نجاشی اچانک غصے سے لال پیلا ہوگیا اور اس نے اتنی زور سے میری ناک پر طمانچہ رسید کیا کہ مجھے یقین ہونے لگا کہ ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔نجاشی سے میں اتنا خوف زدہ ہوا کہ اگر زمین شق ہوجاتی تومیں اس میں گھس جاتا، میں نے کہا:
حضور! واللہ! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تو میں ہرگز جرأت نہ کرتا۔‘‘
نجاشی نے کہا: کیا تم مجھ سے اس آدمی کے قاصد کو قتل کرنے کی اجازت مانگ رہے ہو جس پر وہی ناموس کبیر نازل ہوتا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا؟
میں نے کہا: کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
نجاشی: اے عمرو! تجھ پر افسوس ہے! میری مان اور اس نبی کی اطاعت قبول کرلے۔