کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 195
عثمان بن طلحہ، عمرو بن عاص کے پاس اپنے خیالات کے اظہار کے لیے گیا لیکن اپنے دل کی بات نہ کہہ سکا۔ عمرو بن عاص نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کی تحریک انقلابی صورت اختیار کرچکی ہے، میرے دل میں ایک سوچ آئی ہے، اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ قریشی سرداروں نے وضاحت پوچھی۔ عمرو: میرا مشورہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جاتے ہیں، ہم اس کے ہاں رہیں۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم پر غالب آگئے تو ہم نجاشی کی حکومت میں ہوں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنے سے بہتر ہے کہ ہم نجاشی کی حکومت کے تحت میں ہوں اور اگر ہماری قوم غالب آئی تو ہم معزز طبقہ ہیں، ان سے ہمیں خیر ہی ملے گی۔ انھوں نے کہا: مشورہ تو واقعی اچھا ہے۔ عثمان نے کہا: نجاشی کے لیے تحفے تحائف تیار کرو ہماری سرزمین کے چمڑے اسے بہت پسند ہیں، چنانچہ ہم نے بہت سارا چمڑا جمع کیا اور اس کے پاس جاپہنچے۔ عمرو کہتے ہیں: ہم نجاشی کے پاس ہی تھے کہ عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ آئے، انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے معاملے کے لیے نجاشی کے پاس بھیجا تھا۔ کہتے ہیں: وہ نجاشی کے پاس گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آگیا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا: یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے۔ اگر میں نجاشی کے پاس جاؤں اور اس سے عمرو بن امیہ مانگ لوں، پھر وہ مجھے دے دے اور میں عمرو کو قتل کردوں تو یقیناً ہمارے