کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 193
یہودیوں نے کہا: ’’ظاہر بات ہے آپ کا دین اس کے دین سے بہتر ہے اور تم حق کے زیادہ قریب ہو۔‘‘ یہودیوں کا یہ جواب سن کر عثمان بن طلحہ اتنا خوش ہوا کہ قریب تھا کہ خوشی سے چیخ اٹھتا اور اپنا وقار کھو بیٹھتا۔ دوسرے قریشی بھی بہت خوش ہوئے اور وہ ایک نئے عزم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ انھی یہودیوں کے بارے میں، جو قریشیوں کے پاس آئے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل فرمایا: ﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا ، أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا ﴾ ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا! (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ بتوں اور شیطان پر ایمان رکھتے ہیں اورکافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان لانے والوں سے زیادہ ہدایت والے ہیں؟ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ قطعاً کوئی مدد گار نہیں پائیں گے۔‘‘[1] دوسرے احزاب کے ساتھ قریشی لشکر بھی مدینہ کی طرف روانہ ہوپڑا۔ قریشی جماعت کے ساتھ عثمان بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی چالوں کو ناکام کردیا اور وہ سب نامراد ہوکر واپس لوٹ گئے۔ عثمان کو اس بار پہلے سے بھی زیادہ تعجب ہوا کہ اس مرتبہ پھر ہمیں شکست ہوئی اور ہم دھتکار دیے گئے؟ ہمیں کون بار بار شکست سے دوچار کر رہاہے؟ محمدی لشکر نے تو
[1] النساء 52,51:4۔