کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 192
کیا ہوسکتا ہے؟
لوگ دار الندوہ کی طرف کیوں بھاگے چلے جارہے ہیں؟
عثمان بھی گئے کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے۔ پتا چلا کہ یہود یثرب کا ایک وفد آیا ہے جس میں:
سلام بن ابی الحقیق نضری
حُیی بن اخطب نضری
کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق نضری اور ہوذہ بن قیس وائلی موجود تھے۔
ان کے علاوہ بنو نضیر اور بنو وائل کے کچھ سرکردہ افراد بھی آئے ہوئے تھے۔ ان کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ قریش اور یہودی مل کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف ایک بہت بڑا لشکر تیار کریں۔ یہودیوں نے اپنے ناپاک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے قریشیوں سے کہا:
’’ہم اس وقت تک تمھارے ساتھ ہیں جب تک محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو جڑ سے نہیں اکھاڑ دیتے۔‘‘[1]
عثمان بن طلحہ نے محسوس کیا کہ اب اس کا انتظار ختم ہونے والا ہے اور وہ موقع اب قریب ہے کہ وہ اپنے والد اوربھائیوں کا بدلہ لے سکے گا۔
ابوسفیان نے یہودی وفد سے پوچھا:
’’تم پہلے سے اہل کتاب ہو اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ہمارے درمیان جو اختلافات چل رہے ہیں انھیں بھی خوب سمجھتے ہو۔ کیا خیال ہے تمھارا؟ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا؟‘‘
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍229، والبدایۃ والنہایۃ: 4؍107۔