کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 185
سعیدرحمہ اللہ: ’’تمھارے دل سیدھے نہیں ہیں۔‘‘ حجاج جب اس طریقے سے کامیاب نہ ہوا تو اس نے ایک اور طریقے سے سعیدرحمہ اللہ کو شرمندہ اور رسوا کرنا چاہا۔ حجاج نے سونے چاندی اور موتی جواہرات اور یاقوت کا ڈھیر لگادیا لیکن ان چیزوں کی رسائی اس دل تک کیسے ممکن ہے جس میں اللہ کی محبت، دنیا سے بے رغبتی اور زہد ہو۔ یہ سب دیکھ کر سعیدرحمہ اللہ نے کہا: ’’اگر تو نے یہ سب اس لیے جمع کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے قیامت والے دن کی گھبراہٹ سے آزادی مل جائے گی تو یہ سوچ غلط ہے۔ اس وقت کے ایک لمحے کی گھبراہٹ اور سختی ماں کو دودھ پلانا بھلادے گی اور دنیا کے لیے مال جمع کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے سوائے اس کے جو پاکیزہ اور جائز و حلال ہو۔‘‘ حجاج نے موسیقی کی محفل جمانے کا حکم دیا تو سعیدرحمہ اللہ رو پڑے۔ حجاج نے کہا: ’’کیوں روتے ہو؟ کیا یہ لہو و لعب ہے؟‘‘ سعیدرحمہ اللہ: نہیں، یہ بڑے دکھ کی بات ہے۔ اس محفل میں موسیقی کے آلات میں پھونک ماری گئی تو اس سے مجھے قیامت کے دن صور میں پھونکا جانا یاد آگیا اوریہ عود جو تو نے اس محفل میں جلائی ہے، یہ وہ درخت ہے جسے ناحق کاٹ لیا گیا ہے۔ اور موسیقی کے آلات کے تار جن جانوروں کی آنتوں سے بنائے گئے ہیں وہ بھی قیامت کے دن تیرے خلاف گواہی دیں گے۔ حجاج: ’’تیرے لیے ویل اور ہلاکت ہے۔‘‘ سعیدرحمہ اللہ: ’’ویل اور ہلاکت اس کے لیے ہے جو جنت سے دور کردیا جائے اور جہنم کے قریب کردیاجائے۔‘‘