کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 183
کرنے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے، مثلاً اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ جاؤ، اس کو پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرادو۔ جب یہ طریقہ کامیاب نہ ہوا تو کہا: اسے سمندر میں پھینک آؤ لیکن اس طرح بھی وہ نامراد ہوئے۔ اسی طرح باطل نے حق مٹانے کے لیے جو بھی وسائل استعمال کیے اور جو بھی وساوس شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالے سب کے سب ناکام ہوئے۔ اس وقت بچے نے یہ چاہا کہ اس کی دعوت تمام لوگوں تک پہنچنی چاہیے اور لوگ بڑے قریب سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کو محو عمل دیکھیں۔ اس مقصد کے لیے چاہے اس کی جان بھی چلی جائے۔ ہر داعی یہ جانتا ہے کہ ہر ذی روح کا ایک وقت مقرر ہے جس پر اسے اٹھا لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا﴾ ’’اور کوئی جاندار اللہ کے حکم کے بغیر مرنہیں سکتا، اس نے موت کا وقت لکھا ہوا ہے۔‘‘[1] اس داعی لڑکے نے چاہا کہ اللہ کا یہ پیغام لوگوں تک اللہ اور اس کے دین کے دشمنوں کے ذریعے سے پہنچے اور پھر وہ مطمئن ہوکر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پہنچ جائے۔ جو داعی اپنے عقیدے سے محبت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی دعوت سرکشوں اور طاغوتوں تک پہنچے اور اللہ کا کلمہ بلند ہو اور بت پرستی کا صنم ٹوٹے، انھیں اسی لڑکے کی طرح ہونا چاہیے۔ جب یہ آزمائش اسلام سے قبل داعیوں پر آئی تو داعیانِ اسلام اس سے کئی گنا زیادہ آزمائشوں اور فتنوں میں مبتلا کیے گئے۔
[1] آل عمران 145:3۔