کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 182
میں کودنے میں کچھ پریشانی ہوئی۔ اس کے دودھ پیتے بچے نے کہا: ’’امی جان صبر کیجیے، آپ بے شک حق پر ہیں۔‘‘ [1] اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ ، النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ ، إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ ، وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ ، وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ، الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللّٰهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴾ ’’ہلاک کیے گئے خندقوں والے۔ (ان خندقوں میں) آگ تھی ایندھن والی۔ جبکہ وہ ان خندقوں (کے کناروں) پر بیٹھے تھے اور جو کچھ وہ مومنوں کے ساتھ کر رہے تھے،اسے دیکھ رہے تھے۔ انھیں ان (مومنوں) کا یہی کام برا معلوم ہوا کہ وہ اللہ، غالب، قابلِ تعریف پر ایمان لائے تھے۔ وہ ذات کہ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر شاہد ہے۔‘‘[2] اس داعی لڑکے نے وہ فطری اسلوب پہچان لیا تھا جس کے ذریعے سے اس کی دعوت لوگوں تک پہنچ سکتی تھی، چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کی واضح اور روشن دلیلیں اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت سے لوگوں کو دکھاتا اور لوگوں پر ان معجزات اور آیات پر ایمان لانے کا مطالبہ کرتا۔ بادشاہ جو الوہیت کا مدعی بنا بیٹھا تھا، اس کے کانوں تک بھی لڑکے کی دعوت اور لوگوں کے اس کے اتباع کرنے کی خبر پہنچی۔ بادشاہ کو فوراً اپنی کرسی اور بادشاہت کی فکر لاحق ہوگئی اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ اگر لڑکے کی تحریک اور دعوت اسی طرح مؤثر انداز میں کامیاب ہوتی گئی تو اس کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے بچے کو قتل
[1] صحیح مسلم، حدیث: 3005، و مسند أحمد: 6؍16۔ [2] البروج85: 9۔4۔