کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 181
لڑکے نے جواب دیا: اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے، پھر اس نے بادشاہ سے کہا: تو مجھے اس وقت تک قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرے جس طرح میں کہوں۔ اگر میرے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تو مجھے مارے گا تو میں مر جاؤں گا ورنہ تو مجھے نہیں مارسکتا۔
بادشاہ نے کہا: ’’تجھے مارنے کا کیا طریقہ ہے؟‘‘
لڑکا: ’’لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر، مجھے کھجور کے ساتھ باندھ، میرے ترکش سے میرا تیر نکال اور کہہ: ’’بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ‘‘ ’’لڑکے کے رب کے نام کے ساتھ مارتا ہوں۔‘‘ اگر تو ایسا کرے گا تو میں مر جاؤں گا۔‘‘
بادشاہ نے لڑکے کے کہنے کے مطابق تیر کمان میں رکھا اور پھینکتے ہوئے کہا: ’’بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامِ‘‘
تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا اس نے اپنا ہاتھ تیر کے لگنے کی جگہ پر رکھا اور اسی لمحے وہ شہید ہوگیا۔ لوگوں نے جب یہ منظر دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا: ((اٰمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ)) ’’ہم بچے کے رب پر ایمان لائے ہیں۔‘‘
بادشاہ سے کہا گیا: ’’جس سے آپ ڈر رہے تھے وہی ہوا ہے۔ سارے لوگ مسلمان ہوچکے ہیں، بادشاہ نے کنویں اور خندقیں کھودنے کا حکم دیا، خندقوں میں آگ بھڑکائی گئی۔ ظالم بادشاہ نے حکم دیا: جو اپنے نئے دین سے پھر جائے اسے چھوڑ کر باقی سب لوگوں کو اس آگ میں جھونک دو۔
راوی کہتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے دھکے دیتے جارہے تھے۔ اتنے میں ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا شیر خوار بچہ بھی تھا۔ اسے آگ