کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 177
جی ہاں! جو بھی ہو آخر کار مدد مومنوں اور مخلص بندوں ہی کے لیے نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ ’’اور بلاشبہ ہم زبور میں نصیحت کے بعدیہ لکھ چکے ہیں کہ بے شک میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے۔‘‘[1] یہ قانون حیات اور قانون فطرت ہے۔ تاریخ ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ انبیاء کے پیروکاروں پر کیسی کیسی مصیبتیں نازل ہوئیں۔ ظالم اور جابر ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے لیکن پھر بھی وہ اپنے دین و ایمان سے نہ پھرتے۔ مسند احمد میں سیدنا صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گزشتہ زمانے میں ایک بادشاہ ہو گزرا ہے جس کا ایک جادوگر تھا۔ جب جادوگر بڑھاپے کی عمر کو پہنچا تو اس نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت! جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری موت کا وقت قریب آرہا ہے۔ آپ مجھے ایک ہونہار بچہ دیں جسے میں علم جادو سکھا سکوں۔ بادشاہ نے اسے ایک ہوشیار بچہ فراہم کردیا اور وہ اسے جادو سکھانے لگا۔ جادو گر کے گھر اور بادشاہ کے محل کے درمیان ایک راہب کا گھر بھی پڑتا تھا۔ بچہ راہب کے پاس بھی چلا گیا اور اس کا کلام سنا، بچے کو راہب کا کلام بہت بھایا، چنانچہ اس نے راہب کے پاس جانا اور اس کا کلام سننا اپنا معمول بنالیا۔ جس کی وجہ سے وہ جادوگر کے پاس دیر سے پہنچتا اور جادوگر اسے مارتا اور کہتا: دیر
[1] الأنبیآء 105:21۔