کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 171
میرے گھر میں اس تابوت میں چالیس ہزار درہم موجود ہیں۔ مجھے تو خوف ہے کہ کہیں ہمیں ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں نہ دے دیا گیا ہو۔‘‘ جی ہاں، دنیا نے مسلمانوں کے لیے اپنے خزانوں کے دروازے کھول دیے تھے اور مسلمانوں نے اس کے خزانوں اور جواہرات میں سے بہت کچھ حاصل کیا اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدشے کا اظہار فرمایا تھا: ’’مجھے تمھارے بارے میں کسی قسم کی تنگدستی کا ڈر نہیں ہے۔ مجھے تو خوف ہے کہ تمھیں دنیا اور اس کی زینت وافر مقدار میں مل جائے گی (اور تم اسی میں مگن ہوجاؤگے)۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل سچ ہے۔ دنیا کے چاروں اطراف میں مسلمانوں کے گھوڑے دوڑتے نظر آئے، بڑے بڑے ملکوں کو فتح کیا، مسلمانوں کو خزانوں کی چابیاں پکڑا دی گئیں اور انھیں اسی طرح زندگی کی آسائشیں میسر آئیں جس طرح بادشاہوں کو بڑے بڑے محلات میں حاصل ہوتی ہیں۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے اپنے زندگی کے آخری ایام کوفہ میں گزارے جس میں بہت سی خوبیاں، چھوٹے بڑے مختلف قسم کے باغات عام ہیں لیکن یہ تمام چیزیں آپ کو اپنے دین سے اور اپنے رب سے غافل نہ کرسکیں، حتی کہ انھوں نے فوت ہونے سے پہلے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے کوفہ کے اس بالائی میدان میں دفن کرنا۔ جب تو مجھے یہاں دفن کرے گا تو لوگ کہیں گے کہ یہاں پر صحابی رسول مدفون ہیں، چنانچہ وہ بھی اپنے مردے یہیں دفن کریں گے۔‘‘
[1] صحیح البخاري، حدیث: 4015۔