کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 170
کرتے تھے جبکہ وہ محاذ پر لڑرہے ہوتے تھے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نہایت رحیم اور نرم دل والد کی طرح تھے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کرنے والا خود اللہ تعالیٰ تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑے احسن انداز میں تربیت کی ہے۔ ایک قائد اور لیڈر کو اپنے لشکریوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ایک سپاہی اور مجاہد کو میدان معرکہ میں سب سے بڑی فکر بیوی بچوں اور رشتے داروں کی لاحق ہوتی ہے۔ جب اسے یہ اطمینان ہوگا کہ اس کا امیر اور سربراہ اس کے خاندان اور فیملی کا مکمل طور پر خیال رکھے گا اور ان کی عزت کی حفاظت کرے گا تو جب وہ معرکہ اور میدان کارزار میں داخل ہوگا تو بڑے جذبے، بہادری اور عزم کے ساتھ داخل ہوگا۔ اس کا مقصد یا تو مسلمانوں کی کامیابی ہوگا یا پھر شہادت کا حصول۔ طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گئی تو انھوں نے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اے ابوعبد اللہ! خوش ہوجائیے۔ آپ اپنے بھائیوں سے ملنے والے ہیں۔‘‘ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: ’’میں کوئی جزع فزع نہیں کررہا۔ تم نے مجھے عظیم لوگوں کی یاد دلا دی ہے اور تم نے مجھے ان کا بھائی کہا ہے، وہ لوگ تو اپنا مکمل اجر لے کر اللہ کے پاس پہنچے ہیں۔ اور جب ان کے پاس ان کا قباطی کفن لایا گیا تو پھر رو پڑے اور فرمایا: ’’ہائے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کو جس چادر میں کفن دیا گیا وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر پاؤں ڈھکتے تو سر ننگا ہوجاتا اور سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے حتی کہ ان کے پاؤں پر اذخر بوٹی کے پتے ڈالے گئے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا تھا اور میرے پاس ایک درہم یا دینار بھی نہیں ہوتاتھا اور اب