کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 169
صرف ایک بکری دی اور کہا: ’’جب تم اسے دوہنا چاہو تو اصحاب صفہ کے پاس لے جانا۔‘‘ فرماتی ہیں: ہم وہ بکری وہاں لے کر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف فرما تھے آپ نے بکری کو اپنی گرفت میں لیا اور دودھ دوہنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارے پاس جو سب سے بڑا برتن ہو وہ لے کر آؤ۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں گئی اور برتن تلاش کرنے لگی، مجھے صرف آٹے والا برتن ملا، میں وہی لے کر آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دودھ دوہا، وہ مکمل طور پر بھر گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ! خود بھی پیو اور اپنے ہمسایوں کو بھی پلاؤ۔ جب پھر ضرورت پڑے تو میرے پاس لے آنا۔‘‘ بنت خباب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہمیں جس وقت ضرورت ہوتی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بکری لے کر چلے جاتے۔ آپ نے ہمیں خوب سیر کردیا۔ جب میرے والد صاحب واپس آئے اور بکری کو دوہا تو وہ اسی پہلے والی حالت پر واپس آگئی۔ میری ماں کہنے لگی:’’ آپ نے ہماری بکری کو خراب کردیا ہے۔‘‘ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’وہ کیسے؟‘‘ وہ کہنے لگیں: ’’ہمارا یہ بڑا ڈونگا بھر جاتا تھا اس کے دودھ سے۔‘‘ خباب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’بکری کو کون دوہتا تھا؟ میری والدہ نے جواب دیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔‘‘ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’تو کیا تم نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر سمجھ لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں جو برکت ہے وہ میرے ہاتھوں میں کہاں۔‘‘[1] اے خباب! تو نے بالکل سچ کہا ہے۔ کرۂ ارض پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کی برکت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے لیے سراپا رحمت و ہدایت ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کے بچوں کی دیکھ بھال کیا
[1] الطبقات الکبرٰی: 8؍290۔