کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 167
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کافروں اور ظالموں کے خلاف لڑنے کی اجازت چاہی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت نہ دی کیونکہ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت سے نوازے یا ان کی آل اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کردے جو اللہ کی عبادت کرنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے ہوں۔ اس پر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے۔ آپ ہمارے لیے مدد مانگیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! تم سے پہلے لوگوں کو پکڑ کر ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے، پھر بھی وہ اپنا دین نہ چھوڑتے۔ ان کے جسم پر لوہے کی کنگھیاں پھیری جاتیں جس سے ان کا جسم نوچ ڈالتے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور مکمل کرے گا یہاں تک کہ صنعا سے حضرموت تک اکیلا مسافر سفر کرے گا اور اسے صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا یا پھر اپنی بکریوں پر بھیڑیے کا خطرہ ہوگا لیکن تم جلدی کررہے ہو۔‘‘[1] رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلاشبہ سچ فرمایا تھا۔ جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ اور پیشین گوئی دی تھی و یسا ہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمانوں نے بہت سے ملکوں کو فتح کیا اور دنیا کے کونے کونے سے بے بہا مال و دولت ان کے پاس جمع ہونے لگی۔ یہی کمزور اور بے بس سمجھے جانے والے لیڈر اور سردار بنے اور یوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلمہ بلند و بالا ہوا اور ملتِ کفر رسوا اور ذلیل ہوئی۔
[1] حلیۃ الأولیاء:1؍74، و صحیح البخاري، حدیث: 3612۔