کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 166
مجھے نہیں لگتا کہ تم باز آؤگے یہاں تک کہ اللہ کا عذاب تم پر نازل ہو۔‘‘
عمر نے کہا: ’’یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس اسلام قبول کرنے آیا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول پر اور جو کچھ اس کا رسول لے کر آیا اس پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہوگیا کہ عمر اسلام لے آئے ہیں۔[1]
یہ وہ کردار ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے لیے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے ادا کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ اور زیادہ متحرک ہوگئے اور خفیہ اور علانیہ اسلام کی دعوت عام کرنے لگے۔ دعوتی مشن میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ نے اپنا پیشہ ترک کردیا۔ آپ نے قریش کے ساتھ اپنا حساب کتاب ختم اور آپ کے ساتھ جو لوگ کام کرتے تھے آپ نے ان سے اپنا حق مانگا تاکہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ حبشہ یا کسی دوسرے علاقے کو ہجرت کرجائیں۔
کمزور مسلمانوں کو صبح و شام طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کیا جاتا تھا۔ عذاب دینے والے وہ لوگ تھے جن کے دل پتھر کی مانند تھے، رحمت و شفقت سے ناواقف تھے، ان کے دل بصیرت سے خالی تھے جو انھیں اللہ کے نور کی طرف لے جاتی۔
ایسے کمزور مسلمانوں کا کیا بنا؟
کچھ تو اسی تشدد میں شہید ہوگئے، جیسے سمیہ ام عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم اور دوسرے کچھ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔
اس موقع پر ان بے بس اور مستضعفین (کمزوروں) میں سے ایک جماعت
[1] الطبقات الکبرٰی: 3؍368، و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 1؍366۔