کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 165
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور غسل کیا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفہ انھیں دیا، اس میں سورۂ طٰہٰ مرقوم تھی۔ جب عمر نے بڑے انہماک سے پڑھ لیا تو فرمایا: ’’یہ کلام کتنا ہی اچھا اور خوبصورت ہے۔‘‘ خباب رضی اللہ عنہ نے جب یہ آواز سنی تو سامنے آگئے اور کہا: ’’اے عمر! واللہ! مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد آپ ہی کو خاص کیا ہے۔ کل میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا۔ ’’اے اللہ! اسلام کو ابوحکم بن ہشام یا عمر کے ذریعے سے تقویت دے۔‘‘ سیدنا عمر نے فرمایا: ’’خباب! مجھے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کا پتا بتاؤ، میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا کے قریب ایک گھر میں مقیم ہیں۔ آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ بھی موجود ہیں۔ سیدنا عمر نے اپنی تلوار اٹھائی اور لہراتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف چل پڑے، وہاں پہنچ کر دروازے پر دستک دی، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک نے دروازے کے سوراخ سے دیکھا کہ عمر بن خطاب ہیں اور انھوں نے تلوار بھی میان سے باہر نکالی ہوئی ہے۔ واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو گھبرائے ہوئے تھے اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول! دروازے پر عمر ہیں اور انھوں نے تلوار نکالی ہوئی ہے۔‘‘ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اسے اجازت دے دو۔ اگر خیر کے ارادے سے آیا ہے تو ہم سے خیر ہی پائے گا وگر نہ ہم اسے اسی کی تلوار سے قتل کردیں گے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ اسے اجازت دے دو۔‘‘ وہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ان کا دامن زور سے جھٹکتے ہوئے فرمایا: ’’عمر! کس نیت سے آئے ہو؟