کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 164
کونے میں چھپ گئے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفہ اپنی ران کے نیچے چھپالیا۔ حضرت عمر نے خباب رضی اللہ عنہ کی قرأت سن لی تھی، عمر نے آتے ہی پوچھا: ’’یہ میں نے کس چیز کی آواز سنی تھی؟‘‘
دونوں میاں بیوی نے عرض کی: ’’نہیں تو، یہاں تو کسی چیز کی آواز نہیں تھی۔‘‘
عمر نے کہا: ’’کیوں نہیں، واللہ! مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تم نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین اختیار کرلیا ہے اور ساتھ ہی سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک طمانچہ مار دیا۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کو بچانے کے لیے اٹھیں تو عمر نے انھیں بھی مارا اور انھیں زخمی کردیا۔ جب انھوں نے یہ صورت حال دیکھی توان دونوں نے بے خوف ہوکر کہا: ’’جی ہاں! ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں، آپ جو کرسکتے ہیں کریں۔‘‘
سیدنا عمر نے اپنی بہن کا خون بہتے ہوئے دیکھا تو اپنے کیے پر نادم ہوئے اور نرم پڑگئے اور اپنی بہن سے کہا: ذرا وہ صحیفہ مجھے دینا جسے تم ابھی ابھی پڑھ رہے تھے۔ میں بھی تو دیکھوں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کیا لے کے آئے ہیں۔‘‘
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’ہمیں ڈر ہے کہ آپ ہمیں واپس نہیں کریں گے۔‘‘
عمر نے کہا: ’’تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، مجھے اپنے معبودوں کی قسم! میں اسے پڑھنے کے بعد تمھیں واپس کردوں گا۔‘‘
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ بات سنی تو انھیں عمر کے اسلام قبول کرنے کی امید نظر آئی، انھوں نے کہا: ’’بھائی جان! آپ مشرک ہونے کی وجہ سے پلید ہیں۔ اسے وہی شخص ہاتھ لگا سکتا ہے جو پاک ہو۔‘‘