کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 163
یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قریبی تھے، انھیں اس راز کا پتا تھا کہ فاطمہ اور سعید رضی اللہ عنہما کے پاس حضرت خباب رضی اللہ عنہ آتے ہیں اور انھیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں۔ ایک دن حضرت نعیم رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ تلوار لہراتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف جارہے تھے جو صفا کے قریب ایک گھر میں جمع تھے۔ نعیم رضی اللہ عنہ : ’’عمر! کہاں جارہے ہو؟‘‘ عمر: ’’میں اس محمد بے دین (معاذ اللہ) کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے قریش کے اتحاد کو پارا پارا کردیا ہے، اس نے ہمارے قریشیوں کو بے وقوف بنا رکھا ہے، ہمارے دین کی عیب جوئی کرتا ہے اور ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے۔‘‘ نعیم رضی اللہ عنہ : اللہ کی قسم! عمر! تجھے تیرے نفس نے دھوکا دیا ہوا ہے۔ کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کے بعد بنو عبد مناف تجھے زندہ چھوڑ دیں گے؟ تو اپنے گھر کیوں نہیں جاتا کہ تو اپنے گھر والوں کی اصلاح کرے۔‘‘ عمر: ’’میرے گھر میں سے کون مسلمان ہوچکے ہیں؟‘‘ نعیم: ’’آپ کے بہنوئی اور کزن سعید بن زید اور آپ کی بہن فاطمہ۔ اللہ کی قسم! انھوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار بن چکے ہیں۔ تو پہلے ان کے پاس جا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انھی کی طرف چل پڑے۔ ان کے ہاں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ آئے ہوئے تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورۂ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ وہ یہ سورت انھیں پڑھارہے تھے۔ جب انھوں نے حضرت عمر کی آہٹ محسوس کی تو حضرت خباب رضی اللہ عنہ گھر کے ایک