کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 162
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’وہ کون ہے؟‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’وہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے امیر المومنین! بلال! مجھ سے زیادہ حق دار نہیں ہیں۔ بلال رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے والے موجود تھے لیکن میری حمایت اور مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ایک مرتبہ مشرکین نے مجھے پکڑ لیا، آگ بھڑکائی اور مجھے اس میں جھونک دیا، پھر ان میں سے ایک نے میرے سینے پر اپنا پاؤں رکھ دیا اور اس طرح میری کمر جلتی رہی۔‘‘ پھر انھوں نے اپنی کمر سے کپڑا ہٹایا تو ان کی کمر پر گرم سیخوں سے داغنے کے نشانات واضح طور پر نظر آرہے تھے۔[1] مشرکین کے اسی ظلم و ستم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اسلام جیسی نئی دعوت قبول کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میری معلومات کی حد تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ آپ کی بہن فاطمہ بنت خطاب، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کے عقد میں تھیں۔ دونوں میاں بیوی آغاز اسلام ہی میں دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے تھے، تاہم ابھی تک وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ایک تیسرا شخص بھی تھا جو مسلمان ہوچکا تھا لیکن اس نے بھی ابھی اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا، وہ حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے، ان کا تعلق بنوکعب سے تھا،
[1] الطبقات الکبرٰی:3؍233۔