کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 152
کچھ دیر بعد سیدنا ابوبصیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنا معاہدہ پورا کیا ہے اور آپ نے مجھے ان کے حوالے کیا تھا۔ اب اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی ہے۔[1] اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الوداع کہا اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور مقام عیص پر ڈیرہ لگا لیا جو ساحل سمندر پر واقع ہے اور جہاں سے قریشی قافلے شام کو جاتے ہیں۔ یہیں پر انھوں نے اپنا نیزہ گاڑا اور تلوار کو دھار دی اور یہ عزم کر لیا کہ اب قریش کی تجارتی اور اقتصادی حالت کو تباہ کرنا ہے اور یہیں پہ ایک فوج تیار کرنی ہے۔ انھوں نے سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ قریش کو اب تجارت نہیں کرنے دیں گے۔ بیرونی دنیا سے بالکل تعلق کاٹ کے رکھ دینا ہے اور ان کو ایسا مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے ساتھ گھاس پھوس اور کانٹے دار جھاڑیاں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبصیر کے عزم کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی خیر ہو! اگر اس کے ساتھ کچھ لوگ مل جائیں تو یہ جنگ بھڑکا دے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ان لوگوں تک پہنچ جاتا ہے جنھیں قریش نے قید کررکھا تھا اور انھوں نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے رہبر و رہنما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ ہم ابو بصیر کے ساتھ مل جائیں، چنانچہ وہ لوگ ایک ایک کرکے اس کے پاس پہنچتے رہے حتیٰ کہ ان کی تعداد ستر کے لگ بھگ ہوگئی۔ یہ فدائی قریشی قافلوں کی گھات میں بیٹھ جاتے، ان پر حملہ کرتے اور جو بھی تجارتی
[1] دیکھیے: صحیح البخاري، حدیث: 2732۔