کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 142
ابوجہل اور قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہما بھی تھے، زور دار لڑائی کا حکم دیا، تمام سپاہی بڑے جذبے سے میدان جہاد میں کود پڑے، شہسوار بھی میدان میں اتر پڑے اور لڑائی شروع ہوگئی۔ ابھی جنگ جاری تھی کہ مدینے سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر آگئی۔ اور ساتھ یہ کہ اسلامی لشکر کے نئے کمانڈر انچیف سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ دوسرے مرحلے کی جنگ جب شروع ہوئی تو رومیوں کی صفوں سے ایک کمانڈر رونما ہوا جس کا نام جرجہ تھا۔ اس نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دعوت دی تو آپ سامنے آئے۔ دونوں نے اپنے سیکیورٹی گارڈوں کو کسی بھی ایکشن سے روک دیا۔ جرجہ نے کہا: ’’اے خالد! میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں۔ تم مجھے سچ سچ بتانا اور جھوٹ نہ بولنا کیونکہ ایک آزاد آدمی کبھی جھوٹ سے کام نہیں لیتا اور نہ ہی مجھے دھوکہ دینا کہ ایک شریف آدمی اعتماد کرنے والے کو دھوکہ نہیں دیتا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے تمھارے نبی پر آسمان سے کوئی تلوار نازل کی تھی جو اس نے تمھیں تھما دی ہے اور اب تم وہ تلوار جس پر بھی اٹھاتے ہو شکست دے دیتے ہو؟‘‘ خالد رضی اللہ عنہ : ’’نہیں۔‘‘ جرجہ: ’’پھر تمھیں ’’سیف اللہ‘‘ کیوں کہتے ہیں؟‘‘ خالد رضی اللہ عنہ : ’’اللہ تعالیٰ نے ہم میں اپنا نبی بھیجا تو میں ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو اس نبی کو جھٹلانے والے تھے اور جنھوں نے اس سے لڑائی کی، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے نوازا تو میں نے اس کا اتباع کرلیا تو اب میں وہ اللہ کی تلوار ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر مسلط کردیا ہے۔ اور اس اللہ کے نبی نے میرے لیے نصرت کی