کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 139
تھا۔ ابوجہل اور امیہ بن خلف بہت سے کفر کے سر غنوں کے ساتھ، جنھوں نے مسلمانوں کو صعوبتوں اور مصیبتوں سے دو چار کیا تھا اور ان کے مال مویشی اور گھر چھین لیے تھے، بدر کے مقام پر آجمع ہوئے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟…… بہت ہی کم عرصے کے بعد مومنین کا یہ ہراول دستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جانب مکہ محو سفر تھا، محبت و شوق اور جذبات سے دل پُر تھے، اپنے اس گھر کو جارہے تھے جس میں ان کا بچپن اور جوانی گزری تھی، وہاں کے پہاڑوں کی چوٹیاں، کھیتوں کی شادابی اور جاری چشموں کو دیکھنے کی تڑپ انگڑائیاں لے رہی تھی، بیت اللہ الحرام جو زمین پر لوگوں کے لیے اللہ کا پہلا گھر ہے، اس کی زیارت کا شوق ان میں جاگزین تھا، قربانی کے جانور ان کے ساتھ تھے اور کوئی اسلحہ ساتھ نہیں لائے تھے، محض بیت اللہ کا طواف اور عمرہ ان کا مقصد تھا۔ لیکن قریش نے آگے بڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ اس سال مسلمان عمرہ نہیں کر سکتے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو باخبر کرنے کے لیے کہ ہم صرف عمرے کی غرض سے آئے ہیں، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بطور سفیر ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے سرداروں نے یہ بات بھی قبول نہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو قید کر لیا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ خبرپھیل گئی کہ قریش نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ہے۔ اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک قوم سے لڑ کر عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔‘‘[1]
[1] الکامل فی التاریخ: 1؍313۔