کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 138
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو میری خاطر عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن العاص رضی اللہ عنہما کو کافروں سے آزاد کراکے لائے گا؟ سیدنا ولید بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں انھیں لے آؤں گا، چنانچہ حضرت ولید رضی اللہ عنہ بڑے خفیہ انداز سے مکہ میں داخل ہوئے اور بڑی راز داری سے ان کے مکانوں کا پتا لگاتے رہے۔ ایک دن ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی۔ خاتون نے کھانا اٹھایا ہوا تھا۔ ولید رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: آپ کہاں جاری ہیں؟ اس نے کہا: میں ان دو قیدیوں، یعنی عیاش اور ہشام رضی اللہ عنہما کے پاس جارہی ہوں، چنانچہ ولید رضی اللہ عنہ اس خاتون کے پیچھے چل پڑے اور ان کے ٹھکانوں کا پتا چلا لیا۔ حضرت عیاش اور ہشام رضی اللہ عنہما کو ایک ایسے کمرے میں محبوس کیا گیا تھا جس کی چھت بھی نہیں تھی۔ حضرت ولید رضی اللہ عنہ رات کے وقت کمرے کی دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے اور ان کے پاؤں کی بیڑیاں توڑ کر انھیں اپنے ساتھ سواری پر بٹھا کر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔[1] اور یوں حضرت عیاش اور ہشام رضی اللہ عنہما ایمان کی پناہ گاہ میں پناہ گزیں ہوگئے اور مجاہدین کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ زمانۂ قریب میں یہ روشن اور چمکدار مومن چہرے گندے، قبیح اور بگڑے ہوئے کافر چہروں سے ملنے والے تھے۔ اور یہ سامنا معمول کا نہیں تھا بلکہ نیزوں اور تلواروں سائے میں ہونے والا تھا۔ اور وہ ابوجہل جس نے مومنین اور صابرین کو بے انتہا اذیتیں دی تھیں، اپنے انجام بد کو پہنچنے والا تھا، یہ سب کچھ مقام بدر میں ہونے والا
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 2؍87۔