کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 136
حضرت عیاش رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا اور انھوں نے واپس جانے کی ٹھان لی۔[1] سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ انھیں کسی طرح بھی روک نہ سکے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا: اگر تم نے واقعی جانا ہے تو میری اس اونٹنی پر چلے جاؤ یہ ایک نایاب اور عمدہ قسم کی اونٹنی ہے، اس پر سواری کرنا آسان ہے۔ اگر کہیں پر تمھیں محسوس ہو کہ قوم نے تمھارے ساتھ کوئی سازش کی ہے تواس اونٹنی پر سوار ہو کر واپس آجانا، چنانچہ حضرت عیاش رضی اللہ عنہ ابوجہل اور حارث بن ہشام کے ہمراہ مکہ کو روانہ ہو پڑے۔ راستے میں ابوجہل نے عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا: اے میرے بھائی! اللہ کی قسم! میرا اونٹ بہت زیادہ موٹا ہونے کی وجہ سے تھک گیا ہے۔ کیا میں تمھارے ساتھ اونٹنی پر بیٹھ سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: ہاں اور اونٹنی کو بٹھایا۔ ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاں بٹھا دیں اور ساتھ ہی سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انھیں باندھ کر مکہ لے آئے اور اس طرح انھیں آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ابوجہل اپنی سازش میں کامیاب ہوگیا، وہ مکہ میں دن چڑھے داخل ہوا، اس نے اپنے بھائی کو باندھا ہوا تھا، پھر اس نے بلند آواز سے کہا: اے اہل مکہ! جس طرح ہم نے اپنے اس بے وقوف کے ساتھ کیا ہے تم بھی اپنے بے وقوفوں کے ساتھ اسی طرح کرو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی اس حقیقت کا پتا چل گیا، وہ کہا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ عیاش جیسے لوگوں سے کوئی فرضی یا نفلی عبادت قبول کرے گا اور نہ ہی توبہ قبول ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا لیکن مصیبت پہنچنے پر دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ تشریف لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے بارے میں یہ فرمان نازل فرمایا:
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:2؍148۔