کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 135
ایمان رکھتا ہے؟ اور مدینہ کو ہجرت کر گیا ہے۔ اس طرح کے کلمات اسے ہر طرف سے نوچنے لگے کہ اگر وہ واقعی مسلمانوں کا دشمن ہے تو سب سے پہلے اپنے بھائی کی خبر تو لے۔ ابوجہل مزید کچھ سننے کے لیے تیار نہ تھا، اس نے مدینہ جانے کا پختہ ارادہ کر لیا، چنانچہ ابوجہل اور اس کا بھائی حارث بن ہشام آندھی اور طوفان کی طرح مدینہ پہنچے۔ جب تینوں بھائی مل بیٹھے تو ابوجہل نے کہا: عیاش! تو نے یہ کیا کیا؟ مکہ سے خفیہ طور پر روانہ ہوگیا؟ کیا تو کسی سے خوف زدہ تھا؟ بتا تو سہی تجھے کس نے نقصان پہنچانے کی جرأت کی ہے؟ اب ہم تیرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ تیر ی ماں نے نذر مان رکھی ہے کہ جب تک تجھے نہیں دیکھے گی سر میں کنگھی نہیں کرے گی اور نہ ہی سائے میں بیٹھے گی۔ ابوجہل کی یہ باتیں سن کر عیاش رضی اللہ عنہ نرم پڑ گئے اور ان کی ماں نے جو نذر مان رکھی تھی اس کا ان کے دل پر اثر ہوا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ صرف تمھیں دین سے ہٹانے کے لیے تمھاری قوم کی سازش ہے۔ اللہ کی قسم! جب تیری ماں کو جوئیں تنگ کریں گی تو وہ ضرور کنگھی کرے گی اور جب اسے گرمی نے بے حال کیا تو وہ ضرور سائے میں بیٹھے گی۔ لیکن عیاش نے کہا: ’’میں اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے مکہ واپس ضرور جاؤں گا اور وہاں میرا مال بھی ہے میں جا کر وہ بھی حاصل کروں گا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میں قریش کا مالدار آدمی ہوں۔ میں تمھیں اپنا آدھا مال دوں گا مگر تم واپس مکہ مت جاؤ۔