کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 127
کے پاس حلف برداری کی تقریب منعقد کرتے ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے میں تورات ہوتی ہے۔ اور جب صیہونیوں یہودیوں نے چھ چھوٹے بحری بیڑے مینا (شیر بورگ) سمندر میں چھوڑے اور وہ سلامتی سے اپنے ہدف تک پہنچ گئے تو ان کے وزیر دفاع اور برگیڈئر نے کہا: ’’چھ بیڑے سمندر میں چلائے گئے نہ تو ان پر مناسب اسلحہ تھا اور نہ ان کی حفاظت کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ان بحری بیڑوں نے سمندر ہی سے اپنا ایندھن حاصل کیا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ وہ فور سٹروک تھے بلکہ ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمت اور روح اعلیٰ کی نصرت حاصل تھی۔ یہودیوں کی کتاب مقدس میں اسی بات کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: ’’ہر طرف زمین پر فسادات تھے اور روح اللہ پانی پر سایہ فگن تھی۔‘‘ انسان کی کامیابی اور ناکامی میں عقیدے کا بڑا رول ہوتا ہے۔ اسی بارے میں مثل معروف ہے: ’’جنگیں عقیدے کی بنیاد پر ہوتی ہیں اور نظریہ ایک تصور کو سامنے رکھ کر قائم کیا جاتا ہے۔‘‘ مذکورہ بحث سے فوجیوں کے لیے دینی قیادت کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ واقعی یہ سچ ہے کہ جنگ ایک ناپسندیدہ چیز ہے۔ یہ جوان مردوں، بوڑھوں اور بچوں کو کھا جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾