کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 126
والی جنتوں میں ہیں، یہ ہے عظیم کامیابی۔ اور ایک اور (نعمت) جسے تم پسند کرتے ہو، اللہ کی طرف سے مدد اور فتح قریب اور مومنوں کو بشارت دے دیجیے۔‘‘[1] اسلام کے ہراول دستے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے مذکورہ کلام سنتے ہی اس پر لبیک کہا اور ان کا اس بات پر ایمان تھا کہ اللہ کی نصرت صرف اسی کے ذریعے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ انھوں نے جان لیا تھا کہ نصرت الٰہی کے حصول کے لیے درج ذیل شرائط ہیں: 1۔ اللہ اور اس کے رسول پر گہرا ایمان۔ 2۔ اللہ کے راستے میں جان و مال سے جہاد۔ گہرا ایمان صرف اسی عقیدے اور یقین کے ساتھ حاصل ہوسکتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ اسی ایمان نے ان کے سامنے دنیا کی حقیقت کھول کر رکھ دی تھی۔ وہ دنیا کے چاروں اطراف میں پھیل گئے اور ایسے لگتا تھا جیسے زمین ان کے لیے سکڑتی جا رہی ہو۔ عہد حاضر میں یہودی صیہونیوں نے دونوں معرکوں میں فتح حاصل کی ہے۔ معرکے کے اول و آخر میں مدد انھی کو حاصل ہوتی اور یہ صرف اس وجہ سے ہوتا کہ وہ اپنے عقیدۂ یہودیت میں مضبوط اور پختہ ہیں۔ اسرائیلی فوج میں ہر سال تورات پر مقابلہ بازی ہوتی ہے اور جیتنے والوں کو بڑی عزت اور تکریم اور بڑے بڑے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح بڑے بڑے فوجی افسر اور فیلڈ آفیسر دیوار گریہ کے پاس دینی شعائر کا اہتمام کرتے ہیں۔ مزید برآں اسرائیلی ائر فورس اور پیرا شوٹ فورس اپنی مقدس دیوار
[1] الصف 61 :13۔10۔