کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 125
رات مجھے زیادہ پسند ہے، لہٰذا تم جہاد کو کبھی ترک نہ کرنا۔‘‘[1] اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ، وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ ’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘ [2] سرحدوں کی حفاظت کا معاملہ ہو یا تعلق باللہ اور امتثالِ حکمِ الٰہی کا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان میں سے کسی بھی ذمہ داری سے لمحہ بھر کے لیے غفلت نہیں برتتے تھے۔ اسی طرح اپنے دین اور وطن کے دشمنوں کا ہر وقت مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا درج ذیل کلام بخوبی سنا اور سمجھا ہوا تھا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ، تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ، يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ، وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ’’اے ایمان والو! کیا میں تمھیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے نجات دے؟ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔ یہ تمھارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ وہ (اللہ) تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور پاکیزہ محلات میں (جو) ہمیشہ رہنے
[1] عبقریۃ خالد لعباس العقاد۔ [2] الذّٰریّٰت 51 :18,17۔