کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 118
ابودجانہ رضی اللہ عنہم مسلمانوں کی صفوں میں پیش پیش تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی نصرت فرمائی اور آخر کار مشرکین کو رسوا کن شکست کا سامنا کرنا پڑا، ان کی عورتیں چیختی چلاتی پہاڑوں میں چھپ گئیں، مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور ان کے معسکر تک جا پہنچے۔ یہ صورت حال جب درے پر مقرر تیر اندازوں نے دیکھی تو وہ اپنی گھاٹ کو چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف لپکے۔ تاہم ان میں سے کچھ وہیں پر ثابت قدم رہے اور انھوں نے کہا: ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے اور یہیں پر ٹکے رہیں گے اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نازل ہوا: ﴿ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ﴾ ’’تم میں سے کچھ وہ ہیں جو دنیا کے طالب ہیں اور کچھ آخرت کو چاہتے ہیں۔‘‘[1] جب تیر انداز اپنے مورچوں سے دور ہوئے تو خالد بن ولید جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے اور کافروں کی طرف سے لڑ رہے تھے، نے اس موقع کو غنیمت جانا اور باقی ماندہ تیر اندازوں پر حملہ کرکے انھیں شہید کر ڈالا اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حملہ کردیا۔ مشرکین نے جب اپنی ہمت سنبھلتی دیکھی تو انھوں نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہوگئی اور مسلمانوں کے ستر مجاہد شہید ہوگئے۔ سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ حضرت عمر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے جو دوسرے مہاجرین کے ہمراہ غم سے نڈھال بیٹھے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کس لیے بیٹھے ہو؟ انھوں نے غم زدہ لہجے میں جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوچکے ہیں۔
[1] آل عمران 3 :152۔