کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 117
نے ابودجانہ رضی اللہ عنہ پر تلوار چلائی تو ابودجانہ نے اپنی تلوار سے بچاؤ کیا۔ مشرک کی تلوار بھی ڈھال میں اٹک گئی۔ اب ابو دجانہ نے اس پر تلوار چلائی اور اس کا کام تمام کردیا۔ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے ایک انسان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو بڑے زور سے جوش دلا رہا تھا۔ میں اس کی طرف بڑھا میں نے جب اس پر تلوار چلائی تو اس نے چیخ مار کر واویلا کیا۔ اب پتا چلا کہ یہ تو عورت ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کو محترم جانا کہ اس سے کسی عورت کو قتل نہ کروں۔[1] حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ انھیں ابن قمہ لیثی نے شہید کیا۔ اس نے یہ سمجھا تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شکل و صورت اور قد کاٹھ کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے جلتے تھے۔ اس جنگ میں حضرت عاصم بن ثابت بن ابی الأقلح رضی اللہ عنہ نے بھی بہادری کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے مسافح بن طلحہ اور اس کے بھائی جلاس بن طلحہ کو جہنم رسید کیا۔ جب اسے زخمی حالت میں اس کی ماں کے پاس لایا گیا تو اس نے پوچھا: میرے بیٹے کو کس نے مارا ہے؟ اس نے کہا: مارنے والے نے جب مجھے تیر مارا تو وہ کہہ رہا تھا: یہ تیر لو! میں ابن ابی الاقلح ہوں۔‘‘ چنانچہ اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے مجھے غلبہ دیا اور مجھے عاصم کا سر ملا تو میں اس میں شراب پیوں گی۔‘‘ [2] مسلمانوں اور کافروں کے مابین بڑی گھمسان کی جنگ ہوئی۔ حضرت حمزہ، علی اور
[1] الکامل لابن الاثیر: 2؍152، والبدایۃ والنہایۃ:4؍19۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍20۔