کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 116
ہوئے اور پوچھا: یار سول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس تلوار کو دشمن پر اتنا چلاؤ کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔‘‘ ’’میں اس کو لے کر اس کا حق ادا کروں گا۔‘‘ حضرت ابودجانہ نے کہا۔ ‘‘ آپ نے وہ تلوار انھیں تھما دی۔ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ بڑے بہادر اور دلیر انسان تھے۔ لڑائی کے وقت غرور سے چلتے، چنانچہ جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوار لے لی تو انھوں نے ایک سرخ پٹی اپنے سر پر باندھی اور صفوں کے درمیان اترا کر چلنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ’’اس جیسے موقعوں کے سوا یہ چال اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔‘‘ پھر حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے چند اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’میں وہی ہوں جس سے دامن کوہ کے نخلستان میں میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد و پیمان لیا تھا کہ کبھی صفوں کے پیچھے نہ رہوں گا۔ اللہ اور اس کے رسول کی عطا کردہ تلوار کیا ہی خوب چلتی ہے! بلکہ میں کھڑے ہو کرآخری صف تک برابر مقابلہ کرتا رہوں گا۔‘‘ چنانچہ جو مشرک بھی ان کے سامنے آتا اس کا کام تمام کردیتے۔ اس لمحے مشرکین میں سے ایک آدمی مسلمانوں کے زخمی سپاہیوں کو قتل کررہا تھا۔ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اُس کی طرف بڑھے۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اِن دونوں کا آمنا سامنا ہو جائے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ مشرک