کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 115
انس بن نضر رضی اللہ عنہ بھی ان میں شامل تھے) اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ہمارے دشمن کی طرف لے چلیں تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم بزدل یا کمزور ہیں۔ اس کے بر عکس رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مدینہ ہی میں رہیے۔ اللہ کی قسم! ہم جب بھی اس مدینہ سے نکل کر دشمن سے جا کر لڑے ہیں ہمیں نقصان ہی ہوا ہے اور جب بھی کسی دشمن نے مدینہ میں آکر ہم پر حملہ کیا ہے اسے شکست ہی ہوئی ہے۔ اے اللہ کے رسول! جہاں انھوں نے پڑاؤ ڈالا ہوا ہے انھیں وہیں رہنے دیں۔ اگر وہ اسی جگہ پر رہے تو جنگی نقطۂ نظر سے وہ انتہائی نا مناسب جگہ ہے اور اگر وہ یہاں آکر ہم پر حملہ آور ہوئے تو مرد ان سے تلوار سے لڑیں گے، عورتیں اور بچے او پر سے پتھر برسائیں گے اور اگر وہ وہیں سے واپس ہوئے تو وہ ناکام اور نامراد ہو کر لوٹیں گے۔‘‘ اس رائے پر حضرت حمزہ اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہما نے اتفاق نہ کیا۔ اور حضرت عبداللہ بن جحش اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما وغیرہ عبداللہ بن ابی کے خلاف بھڑک اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ اپنے گھر تشریف لائے۔ زرہ زیب تن کی اور قتال کے لیے نکل پڑے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ جب آپ میدان معرکہ میں وارد ہوئے تو فرمایا: ’’کون ہے جو مجھ سے یہ تلوار لے کر اس کا حق ادا کردے گا! بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ تلوار لینے کے لیے کھڑے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو عنایت نہ کی۔‘‘ حضرت ابودجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ ، جن کا تعلق بنو ساعدہ سے تھا، کھڑے