کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 114
حق وباطل کا پہلا معرکہ جس میں آپ نے مشرکین کے خلاف جہاد کیا، میں اس میں شریک نہیں ہوسکا۔ اب اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف جہاد کا موقع دیا تو آپ دیکھیں گے کہ میں کس طرح بہادری سے لڑتا ہوں۔‘‘[1] حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کو مشرکین کے خلاف معرکہ آرائی کا اتنی شدت سے انتظار تھا کہ انھیں دن لمبے نظر آتے اور وہ سوچتے کہ پتا نہیں کب وہ دن آئے گا جس میں انھیں شہادت نصیب ہوگی یا پھر اللہ اپنی مدد سے مسلمانوں کو فتح و کامرانی عطا فرمائے گا۔ چنانچہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ قریش مکہ نے اس کے بارے میں غور خوض شروع کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں سے بدر کا انتقام کیسے لیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی مدینہ کی طرف پیش قدمی کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا: ’’میں نے خواب میں بہت سی گائیں دیکھی ہیں اور میں نے اس کی تعبیر یہ کی ہے کہ ہمیں بھلائی نصیب ہوگی اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کند ہوچکی ہے۔ خواب میں میں نے اپنا ہاتھ مضبوط زرہ میں ڈالتے دیکھاہے۔ اس کی تعبیر میں نے مدینہ منورہ کی ہے۔ اگر تم چاہو تو مدینہ ہی میں رہو اور انھوں نے جہاں پڑاؤ ڈالا ہوا ہے انھیں وہاں ہی رہنے دو۔ اگر وہ وہاں رہیں گے تو انتہائی نامناسب جگہ رہیں گے اور اگر وہ یہاں تک پہنچ گئے تو ہم مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے ان سے جنگ کریں گے۔‘‘ [2] وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے غزوۂ بدر میں حصہ نہیں لیا تھا، کہنے لگے (حضرت
[1] الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب:1؍108، وصحیح البخاري، حدیث: 4048۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 3؍7، والمستدرک للحاکم، حدیث: 2588۔