کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 113
نصرت کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ، إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ ، بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ، وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴾ ’’اور اللہ نے بدر میں عین اس وقت تمھاری مدد کی جب تم کمزور تھے، پس تم اللہ سے ڈرو تاکہ تمھیں شکر ادا کرنے کی توفیق ہو۔ (اے نبی!) جب آپ مومنوں سے کہہ رہے تھے :کیا تمھارے لیے کافی نہ ہوگا کہ اللہ آسمان سے تین ہزار فرشتے اتار کرتمھاری مدد کرے ؟ کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور دشمن تم پر فوراً چڑھ آئے تو اسی لمحے تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا جن کو (خاص) نشان لگے ہوں گے اور اللہ نے اسے تمھارے لیے خوشخبری بنادیا تاکہ اس سے تمھارے دلوں کو تسلی ہو۔ مدد اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بہت زبردست، نہایت حکمت والا ہے۔‘‘[1] سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے اور انھیں اس محرومی کا بہت دکھ ہواکہ وہ حق و باطل کے پہلے ہی معرکے میں حاضر نہیں ہوسکے، ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، تاہم آئندہ جلد ہی کافروں کے خلاف جنگوں اور معرکوں میں شمولیت کا خیال انھیں تسلی دیتا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی: ’’یا رسول اللہ!
[1] آل عمران 3: 126۔123۔