کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 104
دے یا کسی عمل کو اپنے اوپر لاگو کردے یا اسے ترک کردے ۔ یہ سب کام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات سے ہیں کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے، اس لیے کسی انسان کے لیے لائق نہیں کہ وہ ان طیبات کو، جو اس کے لیے اور اس کی زندگی کے لیے مفید ہیں، حرام ٹھہرائے، اس لیے کہ زندگی اور حیات کے بارے میں اس کی بصیرت اس کنہ اور تہہ تک نہیں پہنچ سکتی جہاں اس حکیم وبصیر کی بصیرت پہنچ سکتی ہے جس نے ان پاکیزہ اشیا کو حلال کیا ہے۔ اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان اشیا میں کوئی شر یا نقصان جانتا تو اپنے بندوں کو ان سے ضرور بچاتا اور اگر ان کے حرام کرنے میں کوئی خیر ہوتی تو وہ انھیں قطعاً حلال نہ کرتا۔ یہ دین تو آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے ہر قسم کی بھلائی اور خیر، مناسب توازن وتناسق کو ثابت کرے، چنانچہ اسلام انسان کی فطری حاجات اور خواہشات کو بالکل نہیں دباتا اور یہی وجہ ہے کہ اسلام رہبانیت کے مخالف ہے کیونکہ رہبانیت فطرت کو دبانے اور مسخ کرنے کا نام ہے۔ رہبانیت طاقت کو موقوف کرنے اور زندگی کے نمو کو روکنے کا نام ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا، اس لیے اللہ تعالی نے ہر قسم کی پاکیزہ چیزوں کو حرام کرنے سے روکا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں زندگی کی افزائش اور اس کی تجدید کے عوامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی اس لیے پیدا کی ہے تاکہ اس میں بڑھوتری اور تجدد پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کے منہج کے ماتحت رہتے ہوئے ترقی پائے۔ رہبانیت اختیار کرنا اور طیبات کو حرام کرنا اللہ تعالیٰ کے اس منہج کے خلاف ہے جو اس کا زندگی کے بارے میں ہے کیونکہ رہبانیت میں زندگی ایک نکتے پر جا کر رک جاتی