کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 44
ارتداد کی لڑائیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو عرب کے بہت سے بدو قبائل مرتد ہوگئے۔ مدینہ منورہ میں بھی نفاق پھوٹ پڑا۔ قبائل کے وفود مدینہ منورہ آتے۔ نماز کا تو اقرا ر کرتے کہ نماز ضرور پڑھیں گے اور زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کرتے۔ بعض قبائل نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ خلیفۂ رسول کو زکاۃ نہیں دیں گے۔ بطور دلیل وہ قرآن مجید کی یہ آیت پڑھتے: ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ﴾ ’’اُن کے اموال سے زکاۃ لے کہ تو اُن کو پاک کرے اس سے اور اُن کا تزکیہ کرے اور دعا دے اُن کو۔ بے شبہ تیری دعا اُن کے لیے باعث اطمینان ہے۔‘‘ [1] اُن کا کہنا تھا کہ ہم تو اُسی کو زکاۃ دیں گے جس کی دعا ہمارے لیے باعث اطمینان ہے۔ بعض نے اِس معاملے میں شعرو شاعری بھی کی تھی۔ ایک شاعر نے کہا تھا: أَطَعْنَا رَسُولَ اللّٰہِ إِذْ کَانَ بَیْنَنَا فَوَا عَجَبًا مَا بَالُ مُلْکِ أَبِي بَکْرٖ ’’رسول اللہ جب تک ہمارے درمیان تھے، ہم نے اُن کا کہا مانا۔ لیکن اب تو ابوبکر کی حکومت ہے۔ مقام حیرت ہے کہ ہم ابوبکر کی بات مانیں! وہ جانے اور اُس کی بادشاہت۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے خلیفۂ رسول کو مشورہ دیا کہ مانعین زکاۃ کو اُن کے حال پر چھوڑ
[1] التوبۃ 103:9۔