کتاب: رجال القرآن 1 - صفحہ 39
یاد رکھو کہ تم میں سے سب سے طاقتور آدمی میرے حساب سے کمزور ہے تا آنکہ میں اس سے وہ معاملہ کروں جس کا وہ مستحق ہے۔ اور تم میں سے کمزور ترین آدمی میرے حساب سے قوی ہے تا آنکہ میں اُس کا بھی حساب برابر کردوں۔ لوگو! میں تو بس پیروکار ہوں (دین کے معاملے میں) کوئی نیا کام میں نہیں کروں گا۔ میں اگر اچھا کروں تو میری مدد کرنا۔ ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کردینا۔‘‘ [1] اسلام میں جو آدمی لوگوں کا حاکم بنتا ہے وہ انھی کا ایک عام فرد ہوتا ہے۔ اسے حکمرانی کی ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں۔ ایک عام فرد کی طرح وہ لوگوں پر اپنی رائے نہیں ٹھونس سکتا نہ اُن سے مشاورت کیے بنا کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔ ریاست کے عام افراد کی طرح اگر وہ اچھے کام کرتا ہے تو اُس کی عزت بڑھتی ہے اور مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور لوگوں کے دل میں اُس کی محبت جاگزیں ہوتی ہے۔ اسی امر کا اعادہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی صدارتی تقریر میں کیا تھا۔ انھوں نے واضح کیا تھا کہ اُن کا طرز حکومت جن اصولوں پر مبنی ہوگا وہ براہِ راست قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں گے۔ وہ ہرحال میں اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں گے اور اسی کو اپنا شعار بنائیں گے۔ یوں نہ تو کوئی طاقتور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کر پائے گا نہ کسی کمزور کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاسکے گا۔ شریعت کی نظر میں سب کے سب برابر ہیں - نہ کوئی ادنیٰ ہے نہ کوئی اعلیٰ- کیونکہ سب آدم کے بیٹے ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ خدمتِ خلق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فطرت کا حصہ تھی۔ اکثر اوقات مدینہ کی بڑی بوڑھی خواتین کی بکریوں کا دودھ دوہ دیتے۔ انھیں آٹا گوندھ دیتے۔ گھر کی صفائی
[1] الطبقات الکبرٰی لابن سعد:3؍182۔183، الکامل لابن الأثیر: 2؍332۔